Tuesday 19 March 2013

يقــين كـامل

چاروں طرف سنگلاخ نوکیلے پہاڑ، تاحد نگاہ پتھروں، ٹیلوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر، دائیں بائیں ہر چیز ساکن، وحشت زدہ خاموشی، سورج کی تپش، گرمی ، تنہائی اور ان سب دکھوں کے درماں گھری اماں ھاجرہ ؓ ہیں.
پاس کجھور کی ایک تھیلی، پانی کا مشکیزہ، ایک شیر خوار بچہ، اپنے عظیم الشان شوہر کے پیچھے لپک رہی ہیں، دوڑ رہی ہیں، سوال کرتی ہے تو جواب نہیں ملتا، التجا کرتی ہے تو آگے سے خاموشی استقبال كرتی ہے.
درخواست کرتی ہیں، اے ابراہیم! آپ ہمیں تنها چھوڑ کر جا رہے ہیں؟
مگر کوئی وضاحت نہیں، مہر سکوت ہے حکم الہی یوں ہے، احکام خداوندی میں بحث کی گنجائش کہاں؟ کامیاب وہی ہے جو سر تسلیم خم کردے.
حضرت ہاجرہؓ بار بار پوچھ رہی ہیں، اے ابراہیم! ہمیں اس بنجر وادی میں چھوڑ کر کہاں چلے؟ ہم کیسے رہیں گے؟ کیا کریں گے؟ گزارہ کیسے ہوگا؟
پریشان کن سوالات کے اندھیروں میں اچانک اللہ نے اماں ہاجرہؓ کے دل کو روشن کردیا، کمال یقین کے ساتھ بولیں:
"کیا اللہ نے آپ کو اس کا حکم دیا ہے؟"
ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا:
"ہاں اللہ نے مجھے اس کا حکم دیا ہے"
يہ سنتے ہی ہاجرہؓ کے دوڑتے قدم يكلخت رک گئے، دل مطمئن اور ذھن پر سکون ہو گیا، گھبراہٹ کی ساری پر چھائیاں کافور ہوگئیں، پریشان کن خیالات کی آندھیاں يكدم تھم گئیں، چہرے پر اطمینان بخش مسرت کی لہر دوڑ گئی، یقین و اعتماد، عزم و ثبات اور سچے موٴمن کی طرح ابراہیم علیہ السلام کا جواب سنتے ہی پکار اٹھیں:
"تو پھر اللہ ہمیں ضائع نہیں کرے گا"

‏لٹیرے

حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ حکمران ہو کے آتے رہے انہوں نے پاکستانی عوام کی مسرتوں کو کچل ڈالا اور وہ اخلاص و ارادت جو ملک کے بچے بچے کو اپنی سرزمین سے تھا نہ صرف صرصر حالات سے مرجھا گیا بلکہ بہت سی چیزیں جنہیں ہمیشہ جوان رہنا چاہیے تھا وقت سے پہلے بوڑھی ہو گئیں.
ہمارے لیے اس سے بڑی كوئى چيز اندوہ گیں نہیں ہوسکتی کہ ہم ابھی تک تجربات کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور ہمارے سامنے مشکلات کا انبار ہے.
آج تک ہندوستان کا مسلمان کسی نہ کسی شکل میں پاکستان کے نصب العین کی سزا بھگت رہا ہے، لیکن ہم اپنی بد بختی کی انتہا کو پہنچے ہوئے ہیں۔ ہمیں احساس ہی نہیں کہ اس ملک کے لیے ہمارے بڑوں نے کیا کیا جتن کیے اور کیونکر اس منزل مقصود تک پہنچے ہیں!!